Mu'awiyah bin Abu Sufyan رَضِيَ اللهُ عَنْهُما
Muhammad's ﷺ Companion
Muslims' 6th Caliph
Chief of first Islamic Navy
Introduction
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ مختصر تعارف
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم الحمدللہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی اشرف الانبیاء و المرسلین محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین ،اما بعد:
صحابی ابن صحابی ، خال المؤمنین ، کاتب وحی معاویہ بن صخر (ابو سفیان) بن حرب رضی اللہ عنھما قرشی اموی کمال فضائل ومناقب رکھتے ہیں ، اسلام کے سب سے پہلے منصف بادشاہ تھے ، جن کی بادشاہت کے بارے نبوی بشارت تھی کہ رحمت والی بادشاہت ہو گی۔ (المعجم الکبیر للطبرانی) سیدنا معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنھما رسول اکرم ﷺ کی بعثت سے تقریباً ۵ سال قبل پیدا ہوئے ۔ ۔ آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہءنسب پانچویں پشت میں رسول اللہﷺ سے ملتاتھا ۔ والدہ، ہندہ بنت عتبہ کی طرف سے چوتھی پشت میں شجرہ رسول اللہﷺ سے جاکر ملتا ہے قبیلہ قریش کی ایک عظیم شاخ بنوامیہ سے تعلق رکھتے تھے ۔ 7ھجری عمرۃ القضاء کے موقع پر اسلام لائے اور اظہار 8ھجری فتح مکہ کے موقع پر کیا ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے قبول اسلام کااعلان فتح مکہ 8 ھ کے موقع پر فرمایا ، ان کے اسلام 7ھجری قبول کرنے کا ایک واضح ثبوت یہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے جنگ بدر، جنگ احد، جنگ خندق اور صلح حدیبیہ میں حصہ نہیں لیا ، حالانکہ آپ رضی اللہ عنہ جوان اور فنون حرب وضرب کے ماہر تھے ۔ قبول اسلام کے وقت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی عمر 17برس تھی ۔ قبول اسلام کے بعد نبی کریمﷺ نے کتابت وحی کی ذمہ داری سونپی ۔ اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے شب وروز خدمت نبوی ﷺ میں بسر ہونے لگے آپ رضی اللہ عنہ کے خاندان بنو امیہ کےتعلقات قبول اسلام سے پہلے بھی حضور اکرم ﷺ کے ساتھ دوستانہ تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ فتح مکہ کے موقع پر آپ ﷺ نے دار ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو دارالامن قراردے دیا تھا ۔ آپ کے کارہائے نمایاں سے تاریخ اسلامی کے اوراق بھرے پڑے ہیں ، چالیس برس تک شام میں حکمران رہے اور ہردلعزیز حکمران رہے ، آپ کے دور خلافت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ بکھری ہوئی امت کو ایک لڑی میں پرو کر رکھا ، امت کے اتحاد کے نقیب بن کر ابھرے اور اپنا زمانہ خلافت دور فاروقی کے اصولوں پر چلتے رہے آپ کے دئیے گئے اصول جہانبانی آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بنے لوگوں کو معلوم ہوا کہ کس طرح ایک حاکم کو فتنوں سے نبردآزما ہونا ہوتا ہے
جرنیل اسلام، فاتح عرب و عجم، امام تدبیر و سیاست، محسن اسلام حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ وہ خوش نصیب انسان ہیں جن کو جلیل القدر صحابی ہونے کے ساتھ کاتب وحی اور پہلے اسلامی بحری بیڑے کے امیر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے ۔ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی 163 احادیث مروی ہیں۔
22 رجب المرجب 60ھ میں کاتب وحی، جلیل القدر صحابی رسول، فاتح شام و قبرص اور 19 سال تک 64 لاکھ مربع میل پر حکمرانی کرنے والے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ 78 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ حضرت ضحاک بن قیس رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی
ضحاک بن قیس الفہری رضی اللہ عنہ سیدنا امیر معاویہؓ کا نماز جنازہ پڑھانے سے پہلے خطبہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں : امیرالمومنین سیدنا معاویہؓ عرب کی شان و شوکت اور عرب کے استقرار و استحکام نیز عرب کے تحفظ و دفاع کی علامت تھے جن کے ذریعہ اللہ تعالٰی نے فتنوں کا قلع قمع کیا اور انہیں بندوں پر حکمران بنایا اور ان کے لشکروں کو بر و بحر تک پھیلایا اور دنیا کے خزانے کھول دیئے آپؓ اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ تھے جن کو اللہ نے بلایا تو انہوں نے جانا قبول کرلیا انہوں نے اپنا عہد پورا کیا یہ ان کا کفن ہے جس میں ہم انہیں لپیٹ کر قبر میں اتار کر اکیلا چھوڑ جائیں گے ان کے اعمال کا معاملہ ان کے اور ان کے رب کے درمیان ہے ۔۔۔الخ تاریخ دمشق ۵٩ / ٢٣١ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی تدفین دمشق کے باب الصغیر میں ہوئی ۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ!!
Mu'awiyah According to Quran
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ قرآن کی نظر میں
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم الحمدلله وحده والصلوة والسلام على من لا نبي بعده: قرآن مقدس کی کئی آیات ہیں جو دیگر صحابہ کی طرح معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں ہم چند آیات کا تذکرہ کرتے ہیں
فضیلت نمبر: (1)
غزوہ حنین میں شرکت کرنے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ثُمَّ اَنۡزَلَ اللّٰہُ سَکِیۡنَتَہٗ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ وَ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ اَنۡزَلَ جُنُوۡدًا لَّمۡ تَرَوۡہَا وَ عَذَّبَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ وَ ذٰلِکَ جَزَآءُ الۡکٰفِرِیۡنَ ۔ توبہ آیت:26. پھر اللہ نے اپنی طرف سے تسکین اپنے نبی پر اور مومنوں پر اتاری اور اپنے وہ لشکر بھیجے جنہیں تم دیکھ نہیں رہے تھے اور کافروں کو پوری سزا دی ۔ ان کفار کا یہی بدلہ تھا ۔ مذکورہ آیت کے اندر جنگ حنین میں شرکت کرنے والے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے اللہ کی طرف سے سکون نازل ہونے کا ذکر ہے نیز انکو مؤمن کہا گیا ہے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اس جنگ میں شامل تھے کیونکہ فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوئے تھے اور جنگ حنین بعد میں ہوئی۔ ابن تيمية رحمه الله فرماتے ہیں : معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے بھائی یزید اور سہیل بن عمرو اور حارث بن ھشام وغیرہ جو فتح مکہ کے ٹائم پر مسلمان ہوئے تھے انہوں نے نبی علیہ الصلاۃ والسلام کے ساتھ حنین کی جنگ میں شرکت کی تھی۔ تو اس آیت( ثم انزل الله سكينته على و رسوله وعلى المؤمنين.....) کے عموم کے اندر داخل ہیں اور وہ مؤمنین میں سے تھے جن پر اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سکینت( راحت) نازل کی۔ مجموع الفتاوى، لابن تيمية: [4/458]۔
فضیلت نمبر (2)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ پر ایمان لاکر جہاد کرنے والوں کے لئے فضیلت: لٰکِنِ الرَّسُوۡلُ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ الۡخَیۡرٰتُ ۫ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۸۸﴾ اعَدَّ اللّٰہُ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تحتھا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿٪۸۹﴾ لیکن خود رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اس کے ساتھ ایمان والے، اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرتے ہیں ، یہی لوگ بھلائیوں والے ہیں اور یہی لوگ کامیابی حاصل کرنے والے ہیں ۔ انہی کے لئے اللہ نے وہ جنتیں تیار کی ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں جن میں یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں ۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔ وضاحت: اس آیت کے عموم سے معلوم ہوا کہ جن بھی افراد نے اسلام قبول کرکے آپ علیہ السلام کے ساتھ مل کر کفار سے جہاد کیا ،وہی لوگ بھلائی والے ہیں اور ان کے لیے جنت کے باغات ہیں اور معاویہ رضی اللہ عنہ اس لسٹ میں داخل ہیں۔
فضیلت نمبر( 3)
غزوہ تبوک میں شرکت کرنے والوں کے لیے فضیلت: لَقَدۡ تَّابَ اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ وَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ وَ الۡاَنۡصَارِ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُ فِیۡ سَاعَۃِ الۡعُسۡرَۃِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا کَادَ یَزِیۡغُ قُلُوۡبُ فَرِیۡقٍ مِّنۡہُمۡ ثُمَّ تَابَ عَلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّہٗ بِہِمۡ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ۔ سورہ توبہ آیت نمبر: 117. اللہ تعالٰی نے پیغمبر کے حال پر توجہ فرمائی اور مہاجرین اور انصار کے حال پر بھی جنہوں نے ایسی تنگی کے وقت پیغمبر کا ساتھ دیا اس کے بعد کہ ان میں سے ایک گروہ کے دلوں میں کچھ تزلزل ہو چلا تھا پھر اللہ نے ان کے حال پر توجہ فرمائی ۔ بلاشبہ اللہ تعالٰی ان سب پر بہت ہی شفیق مہربان ہے۔ وضاحت: اس آیت سے معلوم ہوا کہ تبوک میں شرکت کرنے والے تمام افراد کو اللہ نے معاف کردیا۔ نیز وہ لوگ جنہوں نے پیچھے رہنے کی اجازت طلب نہ کی ان لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: لَا یَسۡتَاۡذِنُکَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ اَنۡ یُّجَاہِدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۴۴﴾التوبہ۔ اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان و یقین رکھنے والے مالی اور جانی جہاد سے رک رہنے کی کبھی بھی تجھ سے اجازت طلب نہیں کریں گے ، اور اللہ تعالٰی پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے ۔ اس جنگ کے حوالے سے بڑا سخت حکم تھا کسی کو پیچھے رہنے کی اجازت نہیں تھی علاوہ چند افراد جو معذور تھے معاویہ رضی اللہ عنہ کا اس غزوہ سے پیچھے رہنا اور گھر بیٹھنے کی اجازت لینا ثابت نہیں ہے،لہذا وہ مذکورہ فضیلتوں کے مستحق بنتے ہیں۔
فضیلت نمبر: (4)
فتح مکہ سے قبل اور بعد میں ایمان لانے والے تمام صحابہ کے لیے (حسنی) جنت کا وعدہ ہے۔ وَ مَا لَکُمۡ اَلَّا تُنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ لِلّٰہِ مِیۡرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ لَا یَسۡتَوِیۡ مِنۡکُمۡ مَّنۡ اَنۡفَقَ مِنۡ قَبۡلِ الۡفَتۡحِ وَ قٰتَلَ ؕ اُولٰٓئِکَ اَعۡظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیۡنَ اَنۡفَقُوۡا مِنۡۢ بَعۡدُ وَ قٰتَلُوۡا ؕ وَ کُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الۡحُسۡنٰی ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ ﴿10الحدید) تمہیں کیا ہو گیا ہے جو تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے؟ دراصل آسمانوں اور زمینوں کی میراث کا مالک ( تنہا ) اللہ ہی ہے تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے فی سبیل اللہ دیا ہے اور قتال کیا ہے وہ ( دوسروں کے ) برابر نہیں بلکہ ان سے بہت بڑے درجے کے ہیں جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہاد کیے ، ہاں بھلائی ( جنت) کا وعدہ تو اللہ تعالٰی کا ان سب سے ہے جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے ۔ وضاحت: اس آیت سے پتہ چلا کہ فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہونے والے صحابہ کو بعد والے صحابہ فضیلت میں نہیں پہنچ سکتے۔لیکن تمام کے لئے اللہ تعالی نے (حسنی )یعنی جنت کا وعدہ کیا ہے۔ امام ابن حزم رحمه الله اپنی کتاب المحلى ( ج 1 ص83) پر فرماتے ہیں : یہ آیت نص ہے کہ جو نبی علیہ السلام کا ساتھی بن گیا اللہ تعالی نے اس کے لئے یقینی طور پر (حسنی) کا وعدہ کیا ہے اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ بےشک اللہ تعالیٰ وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا. اور صحیح طور پر یہ نص بھی ثابت ہے جس کے لیے لیے (حسنی) کا فیصلہ سبقت لے گیا بے شک وہ آگ سے دور رہے گا وہ اسکی آہٹ بھی نہیں سنیں گے۔ اور وہ اس زندگی میں ہوگا جہاں پر جو چاہے گا اسے ملے گا ہمیشہ والی زندگی گزارے گا اسے قیامت کے دن کی بڑی گھبراہٹ پریشان نہیں کرے گی۔ یعنی جس کے لیے (حسنی ) کا فیصلہ ہو چکا ہے وہ جنتی انسان ہے ابن حزم سورہ انبیاء کی ان آیات سے دلیل لیتے ہیں۔ اِنَّ الَّذِیۡنَ سَبَقَتۡ لَہُمۡ مِّنَّا الۡحُسۡنٰۤی ۙ اُولٰٓئِکَ عَنۡہَا مُبۡعَدُوۡنَ ﴿۱۰۱﴾ۙ البتہ بیشک جن کے لئے ہماری طرف سے(حسنی) نیکی پہلے ہی ٹھہر چکی ہے وہ سب جہنم سے دور ہی رکھے جائیں گے ۔ لَا یَسۡمَعُوۡنَ حَسِیۡسَہَا ۚ وَ ہُمۡ فِیۡ مَا اشۡتَہَتۡ اَنۡفُسُہُمۡ خٰلِدُوۡنَ ﴿۱۰۲﴾ۚ وہ تو دوزخ کی آہٹ تک نہ سنیں گے اور اپنی من بھاتی چیزوں میں ہمیشہ رہنے والے ہونگے ۔ لَا یَحۡزُنُہُمُ الۡفَزَعُ الۡاَکۡبَرُ وَ تَتَلَقّٰہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ ؕ ہٰذَا یَوۡمُکُمُ الَّذِیۡ کُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ ﴿۱۰۳﴾ وہ بڑی گھبراہٹ ( بھی ) انہیں غمگین نہ کر سکے گی اور فرشتے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیں گے ، کہ یہی تمہارا وہ دن ہے جس کا تم وعدہ دیئے جاتے رہے۔ ( الانبیاء 101/102/103) ان آیات سے معلوم ہوا جس کے لیے(حسنی) کا فیصلہ ہو چکا ہے وہ جھنم سے آزاد اور جنتی انسان ہے اور بفضل اللہ ، معاویہ رضی اللہ عنہ اس لسٹ میں داخل ہیں، مرزا اور اسکے حواری ان کو اپنی خباثت کی وجہ سے اس لسٹ سے خارج نہیں کر سکتے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (مجموع الفتاوى: [4/459]۔ بےشک یہ وہ طلقاء تھے جو فتح مکہ کے موقعہ پر مسلمان ہوئے تھے اور( معاویہ رضی اللہ عنہ ) ان میں سے تھے جنہوں نے فتح مکہ کے بعد مال خرچ کیا اور جہاد کیا یقینا اللہ نے ان کے لئے حسنی (جنت )کا وعدہ کیا ہے انہوں نے حنین اور طائف میں اپنا مال خرچ کیا اور ان جنگوں میں شرکت کی۔ (مجموع الفتاوى: [4/459]۔
فضیلت نمبر ( 5)
وَ السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ وَ الۡاَنۡصَارِ وَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ تَحۡتَہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿۱۰۰/ التوبہ) اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیروکار ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے ۔ وضاحت: اس آیت میں پہلا افضل ترین گروہ سابقین کو قرار دیا گیا ہے پھر بعد میں ایمان لانے والے افراد کا طبقہ ہے اور معاویہ رضی اللہ عنہ اس دوسرے طبقہ میں داخل ہیں ۔ لیکن رب العالمین نے سب کے لیے جنت کا وعدہ فرمایا ہے۔
فضیلت نمبر( 6)
مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ تَرٰىہُمۡ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانًا ۫ سِیۡمَاہُمۡ فِیۡ وُجُوۡہِہِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ ؕ ذٰلِکَ مَثَلُہُمۡ فِی التَّوۡرٰىۃِ ۚ ۖ ۛ وَ مَثَلُہُمۡ فِی الۡاِنۡجِیۡلِ ۚ ۟ ۛ کَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطۡئَہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰی عَلٰی سُوۡقِہٖ یُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیۡظَ بِہِمُ الۡکُفَّارَ ؕ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنۡہُمۡ مَّغۡفِرَۃً وَّ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ﴿29 الفتح) محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں تو انہیں دیکھے گا رکوع اور سجدے کر رہے ہیں کہ اللہ تعالٰی کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں ، ان کا نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اثر سے ہے ، ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور ان کی مثال انجیل میں ہے مثل اس کھیتی کے جس نے اپنا انکھوا نکالا پھر اسے مضبوط کیا اور وہ موٹا ہوگیا پھر اپنے تنے پر سیدھا کھڑا ہوگیا اور کسانوں کو خوش کرنے لگا تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے، ان ایمان والوں اور نیک اعمال والوں سے اللہ نے بخشش کا اور بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ وضاحت: اس آیت سے تمام صحابہ کی عبادت وغیرہ کو مثالی کہا گیا ہے اور ان دلوں کی سچائی بیان کی گئی ہے کہ ان کا مقصد حیات رب العالمین کی رضامندی کی تلاش ہےاور بفضل اللہ معاویہ رضی اللہ عنہ اس لسٹ میں داخل ہیں۔ امام قرطبي رحمه الله اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: میں کہتا ہوں صحابہ سارے کے سارے عادل ہیں اللہ کے ولی ہیں اور اس کے چنے ہوئے ہیں اور اللہ کی مخلوق میں انبیاء اور رسولوں کے بعد سب سے اعلی انسان ہیں، یہ اہل سنت والجماعت کا مذھب ہے اور اسی مذہب پر اس امت کے ائمہ کی جماعت تھی اور ایک چھوٹا سا گروہ جن کی کوئی پرواہ نہیں ( انکا کوئی شمار نہیں) اس موقف کی طرف گیا ہے کہ صحابہ کا حال بھی بعد والے افراد کی طرح ہے لہذا ان کی عدالت کے بارے میں تحقیق کی جائے گی. ان کی ایسی باتوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔
Mu'wiyah according to Ahadith
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ احادیث کی روشنی میں
...
عمیر بن اسود عنسی نے بیان کیا کہ وہ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ جبکہ ان کا قیام ساحل حمص پر ان کے اپنے ہی مکان میں تھا۔ اور(ان کی بیوی) حضرات ام حرام ؓبھی ان کے ساتھ تھیں۔ عمیر نے کہا: ہم سے حضرت ام حرام ؓنے بیان کیا کہ انھوں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا: ”میری امت میں سب سے پہلے جو لوگ بحری جنگ لڑیں گے، ان کے لیے جنت واجب ہے۔“ حضرت ام حرام کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! کیا میں انھی میں سے ہوں؟ آپ نے فرمایا: ”تم انھی میں سے ہو۔“ حضرت ام حرام ؓ کہتی ہیں کہ پھر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”میری امت میں سب سے پہلے جو لوگ قیصر روم کے دارالحکومت (قسطنطنیہ) پر حملہ آور ہوں گے وہ مغفرت یافتہ ہیں۔“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! میں بھی ان لوگوں میں سے ہوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں!“
- [صحيح بخاري، حديث نمبر:2924]
...
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: ان سے ان کی خالہ ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے قریب ہی سو گئے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو مسکرا رہے تھے، میں عرض کیا کہ آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟ فرمایا میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے پیش کئے گئے جو غزوہ کرنے کے لیے اس بہتے دریا پر سوار ہو کر جا رہے تھے جیسے بادشاہ تخت پر چڑھتے ہیں۔ میں نے عرض کیا پھر آپ میرے لیے بھی دعا کر دیجئیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی انہیں میں سے بنا دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی۔ پھر دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے اور پہلے ہی کی طرح اس مرتبہ بھی کیا (بیدار ہوتے ہوئے مسکرائے) ام حرام رضی اللہ عنہا نے پہلے ہی کی طرح اس مرتبہ بھی عرض کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی جواب دیا۔ ام حرام رضی اللہ عنہا نے عرض کیا آپ دعا کر دیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی انہیں میں سے بنا دے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سب سے پہلے لشکر کے ساتھ ہو گی چنانچہ وہ اپنے شوہر عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسلمانوں کے سب سے پہلے بحری بیڑے میں شریک ہوئیں معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں غزوہ سے لوٹتے وقت جب شام کے ساحل پر لشکر اترا تو ام حرام رضی اللہ عنہا کے قریب ایک سواری لائی گئی تاکہ اس پر سوار ہو جائیں لیکن جانور نے انہیں گرا دیا اور اسی میں ان کا انتقال ہو گیا۔ صحابی رسول عبدالرحمن بن ابی عمیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا ؛ اے اللہ! تو ان کو ہدایت دے اور ہدایت یافتہ بنا اور ان کے ذریعے لوگوں کو ہدایت دے " ۔
- [سنن الترمذی ، کتاب المناقب ، رقم 3842 ، سلسلۃ الصحیحہ ، رقم 1969]
...
سیدنا عرباض بن ساریہ سلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ، آپ ہمیں رمضاں میں سحری کے لئیے بلانے کے لئیے فرماتے "بابرکت کھانے کی طرف آؤ" ۔ پھر میں نے ایک موقع پر یوں فرماتے ہوئے سنا کہ "یااللہ ! معاویہ کو لکھنے پڑھنے اور حساب کا علم عطا فرما اور اسے عذاب سے محفوظ رکھ "
- [ صحیح ابن خزیمہ: 1938 ، سنن النسائی : 145/4 ۔ ابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا ہے ۔]
...
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں: فتنے کے دور میں ہمیشہ میری یہ تمنا تھی کہ اللہ تعالیٰ میری عمر،معاویہ رضی اللہ عنہ کو لگا دے۔
- [الطبقات لابن ابی عروبہ الحرانی:41]